گاؤں آگرہ ضلع ملاکنڈ... ضلع ملاکنڈ تحصیل بٹ خیلہ کا ایک تاریخی گاؤں آگرہ... آگرہ نام اصل میں ہندی زُبان سے ماخوذ جسکے معنی آگ لگانے کی جگہ. یہاں ہندوشاہی دور کی باقیات سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں ہندو شمشان گھاٹ میں اپنے مُردوں کو جلاتے تو اُس لحاظ سے یہ مقام پھر آگرہ سے موسوم ہوا .گاؤں آگرہ کو قبیلہ اُتمانخیل کا گڑھ کہا جاتا ہے. یہاں قبیلہ اُتمانخیل کی ذیلی شاخ شموزئی آباد ہیں. گاؤں آگرہ میں شموزئی کی پھر جو ذیلی شاخیں آباد ہیں اُن میں عُمر خیل, سرکانی خیل اور سرنی خیل شامل ہیں. ان ذیلی شاخوں کے نامور خوانین (مشران ) ملکان کی تفصیل کچھ یوں ہیں.
عُمر خیل شاخ کے نامور خوانین میں ملک عوث خان, ملک سلو, ملک دینو اور ملک محمد وغیرہ شامل ہیں
جبکہ سرنی خیل کے نامور خوانین میں ملک عبدالمنان ملک اسم خان, ملک سبیل خان,گُل ملک, اور ملک محمد سید خان شامل ہیں .اسی طرح سرکانی خیل شاخ سے ملک غریب, ملک مُنڈا, ملک ناؤگی اور ملک ولی خان ,ملک حبیب اللّہ., اور پائندہ خیل سے ملک امیر محمد خان, ملک حبیب اللّہ خان, ملک راست خان, ملک کچکول جیسے نامور شخصیات وابستہ ہیں.
جبکہ گاؤں آگرہ میں قبیلہ اُتمانخیل کی مذہبی شاخ آستانہ دار , شیخی بابا اور ملا سف ( شیخ حسن) کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں. جو سر غُذان اور سرہ غُذان کے نام سے بھی مشہور ہیں م آستانہ دار کی ایک شاخ رینی خیل جو گاؤں کوپر میں سید نظیف بابا کا خاندان ہے کہلاتا ہے. اسکے علاوہ آستانہ دار کی مندنڑ نامی ٹبر(شاخ) وزیر آباد اور پلوسئی میں آباد ہیں
آستانہ دار کون ہیں؟؟
آستانہ فارسی زُبان کا لفظ ہے اور اسکے مُترادف اُردو میں لفظ آشیانہ, انگریزی میں ہاؤس اور عربی میں بیت استعمال ہوتے ہیں. پس آستانہ کے معنی آشیانہ کے اور آستانہ دار کے معنی گھر کے مکین کے ہیں. وہ مکین جسکا حسب نسب معلوم ہوں. آستانہ دار کو عام پشتو میں کورنئ والا یا درنئ کورنئی والا کہتے ہیں, پشتو ظفراللغات کے موولف میاں بہادر شاہ ظفر کاکاخیل نے آستانہ کے معنی اُردو میں خواب گاہ اور مکان بیان کیا ہے. پروفیسر بشیر احمد قریشی نے اُردو سے انگریزی میں آستانہ کے معنی shrine لکھا ہے. جنکے معنی چھوکٹ اور دہلیز کے ہیں, ایسی چھوکٹ جہاں سائلین ہر وقت حاضری دیتے ہوں. لفظ آستانہ دار کو اگر تاریخ میں ڈھونڈا جائے تو یہ لفظ اُس شخص یا گھرانے کے لئے استعمال ہوتا تھا, جو مستجاب الدعوات ( جسکی دُعا قبول ہوتی ہو) ہوتے تھے. جب 1485 عیسوی میں کابل میں مرزا اُلغ بیگ نے یوسفزیی کے نو سو اکابرین کو بےدردی سے مار ڈالا اور باقی یوسفزئی کے گھرانے کابل سے کوچ کرنے پر مجبور ہوئے, تو اُس وقت یوسفزیوں نے اُس وقت اُن میں موجود مستجاب الدعوات آستانہ دار شیخ زنگی ابن مُلاخیل رانزئی سے اپنے حق میں دُعا مانگنے کی درخواست کی, شیخ زنگی ابن مُلاخیل رانیزئی نے یوسف زیوں کو دُعا دی کہ جاؤ تُمھارا ٹھکانہ سوات ہوگا, پس اسکے بعد یوسفزئی کابل سے دلزاک پشاور آئے اور پھر وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ سلاطین سوات کو سوات ملاکنڈ سے بے دخل کرکے یہاں قابض ہوگئے.پس تاریخ کے اوراق کو پڑھ کر یہ معلوم ہوا کہ آستانہ دار اُن گھرانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے, جنکی دُعا قبول ہوتی ہیں.. آستانہ دار اقوام کی مزید تقسیم اسطرح کی گئ ہیں
1. سید گھرانے جو پیر بابا کی اولاد میں سے ہیں آستانہ دار ہیں
2.یوسفزئی قبیلے میں حضرت مدیح بابا, مشر ٹبر, کشر ٹبر, میاں نظر بابا کے گھرانے آستانہ دار کہلاتے ہیں.
3. ترین قبیلہ میں اخون سالاک ,دُرانی, پیر خیل, اخون خیل آستانہ دار کہلاتے ہیں.
4.ترک افغانی میں اخوند درویزہ ,اخون خیل, اخون, کریم, میاں دولت آستانہ دار ہیں.
5.قبیلہ اُتمانخیل کے آستانہ دار گھرانے کوٹ, مینہ, آگرہ اور دیر لوئر میں آباد ہیں. اتمان خیل قبائل کے جو استانہ دار ہیں ان کی ذیلی شاخیں یہ ہیں خزان خیل, شاہی خیل,
زیبا خیل, لنڈا سر خیل وغیرہ وغیرہ
اسکے علاوہ سواتی قوم میں ممیالی, دیشرائے, متراوی, میر اور سرخیلی آستانہ دار میں شامل ہیں.
شموزئی کی شاخ عُمر خیل میں سید علی خیل سے وابستہ واصل خیل کی ایک ذیلی شاخ کالو خیل گاؤں کوپر میں حاجی لطیف بابا کا گھرانہ ہے. جو لطیف کورونہ کے نام سے موسوم اپنی کالونی میں رھ رہے ہیں .گاؤں آگرہ کی شُہرت برٹش انڈیا میں اُس وقت پھیلی جب اس گاؤں کے غازی محمد بابا نے ملاکنڈ ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ میجر لیزلے ولئیم ہزلٹ بیسٹ کو گولی مار کر ہلاک کیا یہ 1934 کی کہانی ہے.
ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر لیزلے ولئیم ہزلٹ بیسٹ کی موت کی کہانی... اس وقت آپ تصویر میں لیزلے ولئیم ہزلٹ بیسٹ کے قبر کی تحتی (slab) دیکھ رہے ہے..میجر بیسٹ ملاکنڈ ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ( 1933تا 1935) رہے. 1914 اور 1935 میں جب پہلی بار ملاکنڈ ایجنسی کے علاقوں کوٹ اور آگرہ میں لیوی فورس کی چوکیاں قائم کی گئی,تو ان چوکیوں کی وساطت سے پھر ,کوٹ,آگرہ,سیلئ پٹے اور ٹوٹئ کے علاقوں پر برٹش سامراج نے Raids کئے,ان حملوں کی بُنیادی وجہ یہ تھی.کہ ملاکنڈ ایجنسی کے ڈھیری گاؤں کے شیر مالک نامی شخص کا بیٹا اور ایک ہندو لڑکی محبت کی خاطر گھر سے بھاگ کر آگرہ گاؤں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے,ہندو لڑکی کے ماں باپ نے ملاکنڈ پولٹیکل انتظامیہ سے شکایت کی کہ شیر مالک نامی شخص کے بیٹے نے اُنکی بیٹی کو اغواء کیا ہے..جس پر پولٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ ایجنسی مسٹر بیسٹ نے آگرہ کے مشران کو حُکم دیا کہ اُس لڑکے اور لڑکی کو انتظامیہ کے حوالے کریں.لیکن آگرہ کے مشران اس بات پر تیار نہ ہوئے,جس پر مسٹر بیسٹ نے لیویز فورس کی وساطت سے آگرہ پر یلغار کی.آگرہ کے ساتھ ٹوٹی ,سیلئ پٹے اور کوٹ کے لوگ بھی مدد کرنے کے لئے آں پہنچے,دوسری طرف فقیر اُلنگر بھی افغانستان سے ان لوگوں کی مدد کے لئے آیا. ,جنگ کی صورت حال پیدا ہوئی.مسٹر بیسٹ خود برٹش فورس کی کمان کر رہا تھا,جیسے ہی وہ آگرہ گاؤں پہنچا, تو فوراً ایک شموزئی غازی محمد بابا کی گولی کا نشانہ بنا,اور موقع پر ہی مر گیا,مسٹر بیسٹ کی لاش پھر ہریانکوٹ گاؤں لائی گئ.یہاں سے پھر پشاور پہنچا کر گورا قبرستان میں دفنائی گئی..سیلئی پٹی کے مقام پر ملاکنڈ لیویز کے دو اہلکار گل حسن اور نوراب گل سکنہ کوٹ اور اسکے ساتھ دیر لیویز کے دو اہلکار زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے..بعد میں آگرہ گاؤں پر جنگی جہازوں سے بمباری کی گئ.مجبوراً آگرہ کے مشران اُس ہندو لڑکی اور لڑکے کو ملاکنڈ انتظامیہ کے حوالہ کرنے پر تیار ہوئے..ہندو لڑکی کو اُسکے ماں باپ کے حوالہ کیا گیا,اور شیر مالک کے بیٹے کو قید میں ڈالا گیا...
تحریر و تحقیق امجد علی اُتمانخیل.
0 Comments